تازہ ترین
کام جاری ہے...
Friday, September 5, 2014

سفر وادیؑ سوات کا

دھرتی پنج دریاواں دی

ہمار سفربذریعہ جی ٹی روڈشروع ہو چکا تھا اوراب ہم دریائے راوی سے گزر رہے تھے۔ دریائے راوی کا قدیم نام ہندو ویدوں کے مطابق دریائے ایراوتی تھا‘ اس کا منبع بھارت میں ہماچل پردیش کے ضلع چمبہ میں واقع ہے۔وہاں سے ایک لمبا سفر کرتے ہوئے امرتسر اور پھر پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ گزرتے ہوئے یہ دریا لاہور میں داخل ہو جاتا ہے۔سنا ہے لاہور میں راوی کبھی بہتا بھی تھا ! اور اس کی لہروں کا جوش و خروش دیدنی ہوا کرتا تھا مگر آج کل توبے بسی سے لاہور کے قریب سے رینگتا ہوا گزر جاتا ہے۔اب کے برس ذرا انگڑائی لی تو لاہور کے گرد و نواح زیرِ آب آگئے تھے۔ اس لئے جیسے بھی چلتاہے‘ٹھیک ہے !

لاہور سے نکل کر آگے بڑھتا ہوا کمالیہ کے قریب قدرے خم کھاکر احمد پور سیال کے جنوب میں دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے۔یوں اس کا کل سفر تقریباً 720کلو میٹر بنتاہے ۔ چلتے چلتے یہ بھی جان لیجئے کہ اس دریا میں کل 2294 یگاواٹ بجلی (ہائیڈرو پاور) پیدا کرنے کی صلاحیت ہے اور بھارت میں اس پر بند باندھ کراب تک 198میگاواٹ‘540میگاواٹ‘ 600میگاواٹ‘ اور 300میگاواٹ۔ یعنی کل 1638 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے ۔ ۔۔ ذراسوچئے ہم کس مقام پر کھڑے ہیں ؟!

خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

پُل سے گزرتے ہوئے بائیں طرف نیچے دریا کے درمیان میں ایک جزیرہ سا نظر آتا ہے ۔ اس میں مغلوں کے دور میں لاہور میں بنائی جانے والی سب سے پہلی عمارت کامران کی بارہ دری واقع ہے۔ اسے مغل بادشاہ ہمایوں کے بھائی اور اس وقت کے لاہور کے حکمران مرزا کامران نے پندرہ سو تیس عیسوی میں ایک باغ کے وسط میں تعمیر کروایا تھا۔ تب راوی آج کل کے مینار پاکستان کے بالکل قریب سے گزرتا تھا اور یہ باغ لاہور سے باہر راوی کے اُس پار تھا ۔ باغ تو راوی کی تند و تیز لہروں کی نذر ہو گیا مگربارہ دری کو معمولی نقصان ہی پہنچ سکا۔ اسی بارہ دری میں مغل شہنشاہ جہانگیر کے خلاف اس دور میں ہونے والی بغاوت کے سرغنہ اس کے بیٹے خسرو ‘ اور اس کے تین سو ساتھیوں کو زنجیروں میں جکڑ کر پیش کیا گیا تو شہنشاہ جہانگیرنے باغیوں کوسزائے موت سنائی تھی ‘ اور اپنے بیٹے کی آنکھیں نکال دینے کا حکم صادر فرمایاتھا ۔

۔۔۔ اور اس موقع پر یہ تاریخی جملہ بھی کہا تھا کہ ’’بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا ! ‘ ‘۔

دو تین دھائیاں پیشترایل ڈی اے نے کامران بارہ دری کی مرمت وغیرہ کروائی اور اسے سیاحت کے نقطہ نظر سے موزوں بنایا۔

تقریباًکامونکی سے گزرنے پر گاڑی میں طاری سکوت ٹوٹ چکا تھا اور اب اس کے مسافروں کے درمیان ہلکی پھلکی گپ شپ کی ابتداء ہو چکی تھی۔ گوجرانوالہ پہنچ کر اچانک استاد جمیل نے گاڑی سڑک کے کنارے روکی اورسڑک کے اُس پارجا کر ایک خاتون کے پاس کھڑا ہو گیا۔ گاڑی میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ اپنی کسی عزیزہ سے ملنے گیا ہے۔ واپس لوٹا توہا تھوں میں کوک‘ سپرائیٹ کی چندجمبوسائز بوتلیں‘ ڈسپوزیبل گلاس اورنمکو‘ بسکٹ وغیرہ کے پیک تھے۔ پتہ چلا کہ ملنے والی کوئی عزیزہ نہیں بلکہ اس کی عزیز از جاں رفیقۂ حیات تھی۔ اور اس نے ہماری مہمان نوازی کے طور پر یہ اشیاء بھجوائی تھیں۔ یہ اندازِ مہمان نوازی بہت بھلا لگا !

گوجرانوالہ سے نکل کراب رچنا دوآب کا آخری حصہ شروع ہو چکا تھا ۔ دوآب‘ دو دریاؤں کے درمیانی علاقہ کو کہا جاتا ہے۔ بیاس اورراوی دو دریاؤں کا درمیانی علاقہ (بیاس کی ’با‘ اور راوی کی ‘ری‘ ) باری دوآب کہلاتا ہے۔یہ مرکزی پنجاب کا خطہ ہے۔اوراس خطہ کی پرانی آبادیاں ما جھہ کے نام سے جانی جاتی ہیں ان میں بھارتی پنجاب سے امرتسر‘ گرداس پوراور ترن تارن‘ جبکہ ہماری طرف سے لاہور‘ قصور‘اوکاڑہ‘ساہیوال‘ خانیوال اور ملتان شامل ہیں۔اسی طرح لاہور کی طرف سے راوی پار کرنے کے بعددریائے چناب تک (راوی کی ’ر‘ اور چناب کی’چنا‘ ) رچنا دوآب کا علاقہ ہے۔اس میں نارووال‘سیالکوٹ‘گوجرانوالہ‘ شیخوپورہ‘ فیصل آباد شامل ہیں۔ اوراب ہم رچنا کی سرحدیعنی دریائے چناب عبور کر رہے تھے۔ اس دریاکا نام دو الفاظ ’چن‘ بمعنی چاند اور’ آب‘ بمعنی پانی پر مشتمل ہے۔ قدیم زبانوں میں اس کانام ’اسکمتی‘ ہندو ویدوں کے مطابق اور’آچے سائنز ‘یونانیوں کے حوالے سے ملتا ہے۔ اس کے پانیوں کا ماخذ بھی راوی کی طرح ہماچل پردیش ہے اوریہ جموں کے علاقے سے بہتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ضلع جھنگ میں تریموں کے مقام پردریائے جہلم سے ملتا ہوااور پھر راوی کو ساتھ ملاتا ہوا اوچ شریف کے مقام پردریائے ستلج کے ساتھ پنجند بناتا ہے۔پھر مٹھن کوٹ کے مقام پر یہ دریا سندھ میں شامل ہو جاتے ہیں۔یوں اسکی کل لمبائی960 کلومیٹر کے قریب بنتی ہے۔ 

دریائے چناب کے کناروں کے ساتھ پنجابی زبان و ادب کی دواہم لازوال لوک رومانوی داستانیں ’ہیر رانجھا‘ اور’سوہنی مہینوال‘ بھی وابستہ ہیں۔ اسی کے سبزہ زاروں میں اچھے اچھے شرفاء گھرانوں کے سپوتوں میاں مراد بخش دھیدو رانجھا اور مرزا عزت بیگ مہینوال نے عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر بھینسیں چَرائیں‘ اسی دریا کی گزر گاہ کے قریب جھنگ میں ہیر آسودۂ خاک ہوئی اور اسی چناب کی لہروں نے سوہنی کو اپنی آغوش میں ابدی نیند سلایا ۔۔۔ 
چناب پار کرنے کے بعد اب ہم ایک نئے دوآب میں داخل ہو چکے تھے۔ چناب کی’چ‘ اور جہلم کی’ج‘ ملا کراس خطے کا نام ’جچ‘ یا ’چج‘ دوآب رکھا گیا ۔یہ گجرات‘سرگودھا‘ منڈی بہاؤالدین‘ ملکوال‘ شاہ پور‘ پھالیہ‘سرائے عالمگیر اور کھاریاں پر محیط ہے۔ پھالیہ کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس کا نام سکند راعظم کے محبوب گھوڑے ’بیوسی فالس‘ کے نام پر رکھا گیا تھا ۔جو یہاں آکر مر گیا تھا اور اس کی یاد میںیہاں ایک یادگار تعمیر کی گئی تھی۔ بیوسی فالس کے نام کا ایک حصہ فالس مقامی زبان میں ڈھل کر پھالیہ ہو گیا۔ اسی خطے میں 326قبل مسیح میں سکندراعظم اور راجہ پورس کی فوجیں ٹکرائیں تھی۔پورس بڑی بے جگری سے لڑا لیکن شکست کھائی ۔اور اسے قید کر کے سکندر اعظم کے سامنے پیش کیا گیا۔اس موقعہ پر ان کے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ بن گیا۔

۔۔۔ مفتوح راجہ پورس‘ فاتح سکندر کے دربار میں قیدی بنا کھڑا تھا۔ 

فاتح نے رعونت آمیز لہجے میں پوچھا : 
’اب بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟‘
’وہی جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں !‘
اسی لہجے میں جواب دیا گیا۔۔۔

کہتے ہیں سکندر اس برجستہ جواب سے اس قدرمتاثرہوا کہ اس نے اسے با عزت رہا کردیا !

۔۔۔ اور سکندر کی فوجیں اس خطے سے آگے پیش قدمی بھی نہیں کر پائیں۔

ہمارااگلا پڑاؤ لالہ موسیٰ کے مقام پر ہوا۔ یہاں رکنے کی بنیادی وجہ یہ ہوئی کہ کولڈڈرنکس کی باقی ماندہ جمبو بوتلیں اب ’کولڈ‘ نہیں رہی تھیں ‘لہٰذاپروگرام یہ بنا کہ ایک عدد واٹر کولر خریدا جائے۔جس میں برف بھر لی جائے۔ اور جہاں ’دل مانگے اور۔۔۔‘ وہیں ’چِل‘ کر لیا جائے۔ سو میاں بشارت اور کچھ ساتھی اس کام کیلئے‘ کچھ استاد جمیل کے ہمراہ گاڑی کے آڈیو ویڈیو سسٹم کیلئے فلیش ڈرائیو فُل کروانے نکل کھڑے ہوئے‘ اور کچھ وہیں گاڑی کے پاس سستانے لگے۔ جب کولر میں برف ‘ اورفلیش میں موسیقی‘ اچھی طرح سے بھر لی گئی توپھر سے سفر شروع ہوا۔

چلتے چلتے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے میاں بشارت نے ہانک لگائی ’ ہاں بھئی۔ ۔۔ لیگ پِیس آؤن؟!‘ سارے حیران کہ میاں صاحب نے لیگ پیس کہاں چھپا رکھے تھے ‘جو اب کھلانے لگے ہیں۔۔۔ اور پھر یوں ہوا کہ بُھنے ہوئے چنوں کا ایک ڈبہ فرنٹ سیٹ سے درجہ بادرجہ پیچھے کی طرف پہنچادیا گیا۔۔۔ اورمیاں صاحب گویا ہوئے ’ہم اپنے دفتر میں انہیں لیگ پِیس کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔۔۔‘

کھاریاں‘ سرائے عالمگیر سے گزرتے ہوئے اب ہم دریائے جہلم پر سے گزررہے تھے۔ دریائے جہلم‘ پانچ دریاؤں کی سرزمین کا مغربی سمت کا آخری مگر سب سے بڑادریا ہے۔یہ مقبوضہ کشمیر میں سری نگرکے قریب چشمہ ویری ناگ سے نکلتا ہے‘اور وولر جھیل میں سے گزرتا ہواڈومل‘ مظفرآباد پہنچتا ہے جہاں اس میں اس کا سب سے بڑامعاون دریا نیلم شامل ہو جاتا ہے۔یہاں سے میر پور سے گزرتا ہوا پنجاب کے میدانوں میںیہ دریا ’جچ دوآب‘ اور’سندھ ساگر دوآب‘کو باہم تقسیم کرتا ہے۔پھر تریمو کے مقام پر دریائے چناب میں جا گرتا ہے۔اس کی لمبائی قریباً 813کلومیٹر ہے۔ یاد رہے دریائے ستلج‘ راوی اور جہلم تینوں بنیادی طور پرچناب کے معاون دریا ہیں۔جبکہ بیاس‘ ستلج کا معاون ہے اوربھارتی پنجاب میں اس سے مل جاتاہے۔

پنجاب‘ انہی پانچ دریاؤں بیاس ‘ ستلج‘ راوی‘ چناب اورجہلم‘ کے دم سے ’دھرتی پنج دریاواں دی‘ کہلاتاہے۔

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں