تازہ ترین
کام جاری ہے...
Friday, September 5, 2014

سفر وادیؑ سوات کا


وادئ سوات


مینگورہ‘مینگاورہ‘ یا منگورہ ضلع سوات کادریائے سوات کے کنارے واقع سب سے بڑا شہر اورایک زمانے میں بہت بڑاسیاحتی مقام تھا۔ ‘ ملکہ الزبتھ نے اسے اس دور کی اپنی سلطنت کے سوئٹزرلینڈ کا نام دیا تھا۔ آج بھی اس کے ارد گرد کی برف پوش چوٹیاں‘ سرسبز باغات‘ْ قدرتی چشمے‘ دریائے سوات کا صاف شفاف ٹھاٹھیں مارتا ہواپانی‘ حد نگاہ تک سبزے سے ڈھکے پہاڑ‘وسیع و عریض وادیاں سب کودعوت نظارہ دیتی ہیں اور لوگ کشاں کشاں ادھر چلے آتے ہیں۔ہم بھی اسی قدرتی حسن کے نظارے کیلئے اپنا گھر بار‘ کاروبار چھوڑ چھاڑ کرہفتہ بھر کیلئے ان وادیوں میں ڈیرہ جمانے کو آگئے تھے۔ کہ اُس مالک الملک‘خالق کائنات کی صناعی کو جی بھر کر دیکھیں۔ جو کہتا ہے:

’کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ اونٹ کو کیونکر تخلیق کیا گیا؟اور آسمان کو کس طرح بلند کیا گیا؟اورزمین کو کیسے ہموار بنایا گیا؟‘
’کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا؟اور پہاڑوں کو اس کی میخیں‘
’اور بادلوں میں سے زوردارپانی برسایا تاکہ ہم اس(زمین)میں سے اناج اور سبزہ‘اور گھنے باغات اگائیں‘
ہم یہی کچھ دیکھنے آئے تھے‘ وادئ سوات کی سیر کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں تھا ۔۔۔
یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلا کام اب یہی تھا کہ شب بسری کیلئے کچھ انتظام ہو جائے۔سو بس اڈے کے قریب ہی ایک مناسب ہوٹل مل گیا۔سوات میں ان دنوں ڈینگی کا بڑا چرچا تھا۔سو میاں بشارت کہیں سے مچھر مار کوائل لے کر آئے اوراسے لائٹر سے جلا کر خود ہر کمرے میں جا کر لگایا‘ہوٹل کے کمرے مناسب طور پر ہوادار تھے۔ اس سے رات کو موسم خوشگوار ہو گیا تھا‘ ہم جو سارا دن گرمی میں سفر کرتے رہے تھے۔اب خاصا سکون محسوس کر رہے تھے۔ کھانے کی طلب تو اب تھی نہیں‘ کچھ پھل وغیرہ کھائے‘صبح کیلئے پروگرام کا خاکہ بنایا اور بستروں پر دراز ہو گئے۔ نیند تو جیسے اسی بات کی منتظر تھی‘جلد ہی سب کو اپنی آغوش میں لے لیا۔۔۔

پے خاور‘ پے خاور‘پشورے‘پشورے‘پشورے‘ چکدرئے‘ چکدرئے‘ ۔۔۔

۔۔۔ رات کے آخری پہر میں گہری نیند سوتے ہوئے کانوں میں اس نوعیت کی کچھ عجیب و غریب آوازیں آنے لگیں‘ جو پرندوں کی بولیاں توبہرحال نہیں تھیں۔۔۔ ! ہم پریشان سے ہوگئے‘ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟یہ کس قسم کی آوازیں ہیں؟ کیا بولیاں ہیں؟ کیا ہو رہا ہے؟ ہم کہاں ہیں؟ذرا آنکھیں کھلیں‘اوسان بحال ہوئے تو پتہ چلا کہ مینگورہ کے ہوٹل میں ہیں اور اس ہوٹل کے بالکل سامنے لاری اڈا ہے۔ اور صبح کاذب کے وقت ہی بسوں ویگنوں کی آمدورفت شروع ہو جاتی ہے ! 

خیر‘کچھ دیر مزید بستر میں ہی لیٹے لیٹے اذان کا انتظا کرتے رہے۔ کمرے میں ہی نماز پڑھی۔اورپھرتیاریاں شروع ہوگئیں۔سب واش روم مصروف ہوگئے‘ ادھر ایک نہا نے کے لئے تولیہ صابن ہاتھ میں لئے پھر رہا ہے ‘ تو دوسراشیو بنانے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔میاں بشارت کو اور کچھ نہ سوجھا توساجد کو آئینہ پکڑا کر سامنے کھڑا کر لیا اورشیوبنانے لگے! اس دوران جوان مراحل سے فارغ ہو چکے تھے ‘اپنے اپنے کیمرے چیک کر رہے تھے ۔ کسی کی شیو بناتے ہوئے تصویر‘کسی کی آنکھیں ملتے ہوئے تصویر‘کسی کی تصویر اس طرح کہ پس منظر میں لاری اڈا بھی آئے ‘مسجد بھی آئے‘اور پہاڑ بھی!غرض یہ کہ تصویر‘ تصویر‘ اور تصویر۔۔۔

تیاری مکمل ہونے کے بعد اب ہینڈی کیم کیلئےDV کیسٹ ‘اور اپنے لئے ناشتے کی تلاش کا مرحلہ تھا ‘ لہٰذا مینگورہ شہر میں گھومنے لگے‘ جلد ہی کیسٹ بھی مل گئی۔اور ناشتے کیلئے ایک سواتی چنے والا ہوٹل بھی۔چنے خاصے لذیذ تھے ‘اور ساتھ گرم گرم خمیری روٹیاں‘ دل لگا کے ناشتہ کیا۔واپس ہوٹل آئے۔سامان کو گاڑی میں ڈالاگیا‘ اورگاڑی کوبحرین روڈ پر ڈال دیا گیا۔پروگرام یہ تھا کہ راستے کے قابلِ دید مقامات دیکھتے ہوئے آج شام تک کالام پہنچ جایا جائے۔ اور رات گزارنے کے بعد صبح جھیل مہوڈنڈ کی سیر کی جائے۔

اس راہ میں پہلا قابلِ دید مقام ‘بحرین روڈ پرمینگورہ شہر سے نکلتے ہی چار پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے سوات کے کنارے ’ٖفضاگٹ پارک‘ ہے۔یہ خوبصورت مناظرِ فطرت اوردریائے سوات سے نکلی ہوئی ندیوں میں تین اطراف سے گھرا ہوا ہے۔فضا گٹ کا پرانا نام’ قضا گٹ‘ تھا۔ پشتو میں’ قضا ‘موت کو اور’ گٹ‘ چٹان کو کہتے ہیں‘ یعنی موت کی چٹان۔ ان دنوں دریائے سوات کے کنارے باقاعدہ سڑک نہیں تھی۔اور بالائی سوات سے منگورہ آنے جانے والوں کودریا کے ساتھ ہی واقع بلندپہاڑکی چوٹی پر سے پُر پیچ اور تنگ راستے سے سفر کر نا پڑتا تھااور پاؤں کی معمولی لغزش سے آدمی سینکڑوں فٹ کی بلندی سے نیچے گر کر دریائے سوات کی تند و تیز لہروں کا شکارہو جاتا تھا۔اس لئے اس مقام کا نام قضا گٹ پڑ گیا۔خیر‘اب حالات بہت مختلف ہیں۔ فضاگٹ کو باقاعدہ پارک کی شکل 1984میں دی گئی۔یہاں‘ اس سیر کے دوران پہلی مرتبہ‘ ہم نے مختلف زاویوں سے اپنے اپنے ذوق اوردلچسپی کے مطابق تصویریں بنائیں اور بنوائیں۔ اور مناظرِ فطرت کواپنے کیمروں میں سمونے کی بھرپور کوشش کی۔

ہماری اگلی منزل مالم جبہ تھی۔۔۔

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں