تازہ ترین
کام جاری ہے...
Friday, September 5, 2014

سفر وادیؑ سوات کا


پہلا پڑاؤ


اب وہ وقت آن پہنچا تھا کہ مہر عقیل کے گھر سے آئے ہوئے آلو والے پراٹھوں کی طرف توجہ کی جائے‘ سو طے یہ پایا کہ سڑک کنارے کوئی مناسب چارپائی ہوٹل ڈھونڈا جائے۔جہاں پراٹھوں کے لئے دہی و دیگر لوازمات مل سکیں اورباسہولت کھانا چائے وغیرہ کا کورس مکمل ہو سکے۔ ہماری یہ تلاش اور جستجو کہیں روات جاکررنگ لائی۔گاڑی سے اتر کر ہوٹل کی چارپائیوں پر براجمان ہوئے ۔میاں بشارت اچارکا ایک ڈبہ بھی ساتھ لائے تھے۔ پراٹھے‘ دہی‘ اچار‘ سلاد‘دال ماش‘ روٹیاں‘ چائے‘ اچھاخاصامینو ہوگیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر نمازِظہر پڑھی۔ اور کچھ دیر سستانے لگے۔
اسی دوران جمیل گاڑی کے ارد گرد چکر لگا کر اپنے طریقۂ کار کے مطابق گاڑی کو چیک کرنے لگا۔

راستے میں پٹرول ڈلواتے وقت استاد جمیل کو ہر کوئی کہہ رہا تھا ’ ٹینکی کا خیال رکھنا‘۔ کہیں پٹرول کی بو محسوس ہوئی توہرطرف سے یہی آواز آئی ’ٹینکی کا خیال رکھنا‘۔ باتوں کے دوران کوئی خاموشی کا وقفہ آیا تو۔۔۔ ’ٹینکی کا خیال رکھنا‘۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر تھی ۔۔۔ اور پھر کھانا کھانے کے بعد جب جمیل سچ مچ گاڑی کے پٹرول ٹینک کی طرف گیا تو تجسس مزید بڑھ گیا ‘ ہم سے رہا نہیں گیا اور آخر ہم نے پوچھ ہی لیاکہ یہ کیا ماجرا ہے؟ پتہ چلا کہ پچھلے ٹور کے دوران راستے میں جب حفظِ ماتقدم کے طور پرپٹرول ٹینک فُل کروایا گیا تھا توپہاڑی علاقہ شروع ہونے سے ذرا پہلے‘ جہاں اس کی اصل ضرورت تھی‘ ٹینک لیک ہونے کی وجہ سے خالی ہو چکا تھا۔۔۔ اور ساراپٹرول راستے میں سڑک پر بہایا جاچکا تھا !

ایک صاحب کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔جنازہ ‘ جنازگاہ کی طرف جا رہا تھا کہ چارپائی اُٹھانے والوں کی غلطی سے راستے میں بجلی کے ایک کھمبے سے ٹکرا گیا۔میّت چانک ہڑ بڑا اُٹھی‘ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ یہ سب کیا ہے؟پتہ چلا کہ موصوفہ پر سکتہ طاری ہوا تھا‘ موت نہیں۔خیر خوشی خوشی(یا بادل نخواستہ!) اسے گھر واپس لے آئے۔ ازدواجی زندگی کا پھر سے آغاز ہوا۔ ۔۔ کچھ عرصہ بعد موصوفہ کاایک بارپھرانتقال ہو گیا۔ اب کے شوہربیچارہ جنازہ لے کے جانیوالوں کوپکارپکار کر کہہ رہا تھا ’کھمبے سے بچا کے بھئی ۔۔۔ کھمبے سے بچاکے!‘

بہر حال اس دفعہ واقعی ’ کھمبے سے بچ گئے تھے‘ یعنی استاد جمیل نے پٹرول ٹینک کو چیک کرکے اطمینان کر لیا تھا ۔۔۔اور اس کے بعد سب لوگ ایک با ر پھرجس ترتیب سے گاڑی سے اترے تھے۔ اسی ترتیب سے بیٹھ گئے اور سفر کا اگلا مرحلہ شروع ہو گیا۔

کھانا کھانے کے بعد ہر ایک پربقدرِ ظرف خُمارِ گندم کا اثرطاری رہاسوائے استاد جمیل کے ۔وہ نہایت ذمہ داری سے ڈرائیونگ میں مصروف رہا۔نیند اوربیداری کی ملی جلی کیفیت میں ہم ٹیکسلااور حسن ابدال سے گزر گئے۔اب سندھ ساگر دوآب اور صوبہ پنجاب کے تقریباً آخری علاقے میں تھے۔سامنے دریائے سندھ دکھائی پڑ رہا تھا۔دریائے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا اوربراعظم ایشیا کاایک اہم دریا ہے۔اس کا منبع سطح مرتفع تبت کی ایک جھیل مانسرور کے قریبواقع ہے۔ سطح مرتفع تبت‘تبت اور چین کے صوبہ چنگھائی اور کشمیر کے علاقے لداخ تک پھیلا ہوا مشرقی ایشیا کا عظیم ترین‘ بلکہ دنیا بھرمیں سب سے بڑاسطح مرتفع ہے ۔اسے ’دنیا کی چھت‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی اوسط اونچائی4500میٹر ہے۔اور رقبہ پچیس لاکھ مربع کلو میٹر ۔۔۔ 
ہمارا دریائے سندھ‘ دنیا کی اسی چھت سے نکلتا ہے۔

دریائے سندھ کے کئی نام ہیں۔جہاں سے نکلتا ہے‘ وہاں اسے ’شیر دریا‘ کہا جاتاہے۔عربی میں ’نہرالسند‘کہتے ہیں۔ فارسی میں ’رودِ سند‘کہلاتا ہے۔ ترکی میں اس کا نام نیلاب‘ہے۔ ہندی میں ’سندھو ندی‘کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور پشتو میں اسے کہتے ہیں’ اباسین‘ یعنی دریاؤں کا باپ! دریائے سندھ لداخ‘ گلگت اور بلتستان سے گزرتا ہے اورپاکستان بھرمیں جنوب کی سمت اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے کراچی کے قریب بحر ہند میں جا گرتا ہے۔ یوں اس کی لمبائی3180کلومیٹر بنتی ہے اور یہ پاکستان کا سب سے لمبا دریابھی ہے۔

دریائے سندھ پار کرتے ہوئے ہم اب اٹک کے پل پر سے گزر رہے تھے ۔اور صوبہ خیبر پختون خواہ میں داخل ہو رہے تھے۔

اٹک کے پل کی وجہ تسمیہ اس کا ’اٹک ‘کے علاقے میں واقع ہونا ہے۔اٹک کے نام کے بارے میں کچھ روایات کے مطابق اکبراعظم نے یہ نام اس لئے رکھا کہ وہ خودیہاں سے دریائے سندھ کو بمشکل عبور کر پایا تھا۔یعنی اس کی فوجیں یہاں ’اٹک ‘کر رہ گئی تھیں۔ ویسے مقامی آبادی خود اس علاقے کو اٹک کے نام سے پکارتی تھی کیونکہ یہاں اُس دور میں چند کشتیاں جوڑ کرپُل بنایاجاتاتھا اور جب پہاڑوں کی برف پگھلنے سے دریا میں طغیانی کا سماں ہوتا تویہ پُل ٹوٹ جاتا اوراِدھر کی آبادی اِدھر اور اُدھرکی اُدھر اٹک کر رہ جاتی۔تب فوجی اور انتظامی نقطۂ نظر سے یہ مقام نہایت اہمیت کا حامل تھا ۔کیونکہ افغانستان کی طرف سے آنے والے اس راستے کے علاوہ اور کہیں سے گزر نہیں سکتے تھے۔اسی اہمیت کے پیش نظریہاں’قلعہ اٹک‘ اکبر اعظم کے دورِحکومت میں خواجہ شمس الدین خوافی کے زیرِنگرانی1581ءسے1583ء کے دوران دریا کے بائیں کنارے پر تعمیر کیا گیا تاکہ دریائے سندھ پار کر کے اِس طرف آنیوالوں پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔ اوربوقت ضرورت مکمل دفاع کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اسی مقام پر شاہراہ کے دوسری طرف ایک اور’ قلعہ خیرآباد ‘بھی بنایا گیا جو اکبر اعظم یاشایدنادرشاہ کا تعمیر کردہ ہے۔

کامرہ ائیربیس کے سامنے واقع ’شمس آباد‘ شمس الدین خوافی ہی کا بسایا ہوا قصبہ ہے۔اور اُسی دور میں بسایا گیا تھا۔

اٹک سے آگے نکل کرجہانگیرہ اوراکوڑہ خٹک کے بعدنوشہرہ پہنچے۔یہاں آکرکولڈڈرنک کا نیا اسٹاک لیا گیا۔ استاد جمیل ایک چوک میں گاڑی روک کرڈیوٹی پر موجودٹریفک پولیس سارجنٹ سے راستہ پوچھنے لگا تھا کہ اُس ظالم نے جھٹ چالان بک نکال لی اور ڈھیروں منت سماجت کے باوجودچالان کر دیاکہ گاڑی یہاں کیوں روکی؟ خیراُسی کو چالان کی ادائیگی کی‘اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔اب پتہ نہیں کس نے سارجنٹ صاحب سے ان کا نام پوچھ لیا۔ موصوف کا پارہ ایک بارپھر انتہائی حدوں کو چھونے لگا۔نہ جانے یہ اُنکی کوئی دُکھتی رگ تھی‘ یاپھر دُم پر کسی کاپاؤں آ گیاتھا ! خدا خدا کرکے اُن سے جان چھڑوائی اورآگے کو روانہ ہوئے۔اب ہمیں مردان بائی پاس سے گزرتے ہوئے تخت بھائی کی طرف جانا تھا۔یہاں بائی پاس کے قریب ایک با ر پھر وہی غلطی دہرائی گئی۔۔۔ یعنی چوک میں گاڑی روک کر ڈیوٹی آفیسر سے راستہ پوچھا گیا۔ نتیجہ پھر و ہی ایکشن ری پلے ! چالان !

ایک سردار جی کسی کام کے سلسلے میں جلدی جلدی اپنے گھر سے باہر نکلے تو قریب ہی راستے میں کیلے کا چھلکا گِرا پڑا دکھائی دیا۔بے دھیانی میں چلتے چلتے اس پر سے پاؤں پھسلا اوردھڑام سے گر گئے۔ کپڑے جھاڑتے اورجوڑ سہلاتے ہوئے اُٹھے۔مگر لباس کی حالت زیادہ خراب ہو چکی تھی‘سو واپس گھر گئے‘ لباس تبدیل کیا‘ اور پھرسے سفر پر نکلے۔ لیکن دیر بھی بہت ہو گئی ‘مزا بھی کرکرا ہو گیا‘اور سارا دن جسم درد الگ۔اگلے دن پھراچانک کوئی ضروری کام پڑ گیا۔ تیار ہو کر گھر سے نکلے تو راستے میں پھرایک کیلے کا چھلکا نظرآگیا۔پہلے چھلکے کی طرف دیکھا اورپھر اپنے صاف ستھرے لباس کی طرف دیکھتے ہوئے بے بسی سے گویا ہوئے ’’ لگدا اے اج فیر ڈِگنا پَؤ ‘‘۔۔۔۔ !

۔۔۔یہاں ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا تھا !

تخت بھائی پہنچ کر رات کا کھاناکھانے کی فکردامن گیر ہوئی۔ سنا تھا یہاں کے چپلی کباب نہایت عمدہ ہوتے ہیں۔سو چپلی کباب ہی کھائے۔ ہمیں توکچھ جلے جلے سے لگ رہے تھے ‘ لیکن شاید وہاں ایسے ہی پسند کئے جاتے ہوں۔۔۔ ویسے بھی کہتے ہیں:
When in Rome, do as the Romans do.

کھانا کھانے کے بعدشیر گڑھ‘ سخا کوٹ‘ درگئی‘بٹ خیلہ‘چک درہ‘بری کوٹ کے راستے کچھ سوئے اور کچھ جاگتے سفر جاری رہا۔ یہاں تک کہ یہ سفر جوآج صبح سے جاری و ساری تھا‘آخر کار اپنے منطقی انجام کو پہنچا اور ہم الحمدللہ بخیر و عافیت مینگورہ پہنچ گئے۔

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں