تازہ ترین
کام جاری ہے...
Friday, September 5, 2014

سفر وادیؑ سوات کا


جھیل مہوڈنڈ


مہوڈنڈ پہنچے توسب سے پہلے ٹھنڈی ہوا نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ یہ چھوٹا سا قطعہ اراضی اپنے موسم‘ محل وقوع‘ جھیل اور کشتی کے رُومانوی مناظر کی وجہ سے حقیقتاًسراپاحُسن ہے۔ جھیل کا نام ’مہو‘بمعنی مچھلی اور ’ڈنڈ‘بمعنی جھیل سے مرکب ہے۔ یعنی مچھلیوں والی جھیل۔اس جھیل میں ٹراؤٹ مچھلی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ٹراؤٹ عمومی طور پرشفاف‘ اور دس سے سولہ ڈگری سینٹی گریڈتک کے ٹھنڈے چشموں اور جھیلوں میں رہنا پسند کرتی ہے۔ پانی کے بہاؤ کے خلاف سفر کرنے والی یہ نازک اندام مگر طاقتور مچھلی جب دریا کی تہہ میں پتھروں پر جلوہ فگن ہوتی ہے توایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی شہسوار گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر بیٹھا ہو ! 

آج سے بیسیوں سال پہلے یہ مچھلی یورپ سے کشمیر لائی گئی پھر کشمیر سے اس کی افزائش نسل کاغان میں کی گئی۔ابدوسرے پہاڑی علاقوں میں بھی اس کی پرورش کی جا رہی ہے۔یہ مچھلی تقریباً دس سے سولہ انچ لمبی ہوتی ہے۔اس کے منہ میں تیز دانت ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ دیگر مچھلیوں کے علاوہ چھوٹی ٹراؤٹ مچھلیوں کو بھی ہڑپ کر جاتی ہے۔ اسے قدرت نے کیموفلاج یابھیس بدلنے جیسی خوبی سے بھی نواز رکھا ہے یعنی شفاف چشموں اور جھیلوں میں سفید و سیاہ چتکبرے پتھروں کے درمیان رہنے والی ٹراؤٹ کا رنگ وروپ عموماً اسی طرح کاچتکبرا ‘ جبکہ سمندر یا فارم میں پلنے والی ٹراؤٹ کا رنگ نقرئی‘سلیٹی اور سیاہی مائل ہوتا ہے۔ اگرچشموں کی چتکبری ٹراؤٹ کوفارم میں لا کر رکھا جائے تو اس کارنگ حیرت انگیز طور پر آہستہ آہستہ بدل کرنقرئی‘ سلیٹی اور سیاہی مائل ہو جاتا ہے۔ یہ مچھلی ‘ذائقے اورلذت کے اعتبار سے دنیا کی چندمشہور مچھلیوں میں شمار کی جاتی ہے۔اور دنیا بھر میں انسانوں کے علاوہ بھورے ریچھ‘ اور عقاب جیسے شکاری پرندے اسے بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔

سرسبزپہاڑوں میں گھری ایک حسین سی وادی‘ اس وادی میں خوبصورت سی جھیل ‘اور اس جھیل میں کشتی کا سفر‘ کس قدر سہانا تخیل ہے ! سو ہم نے دو کشتیاں بک کروائیں۔آدھے ایک میں سوار ہوئے‘ آدھے دوسری میں‘ اورپھر کشتیاں جھیل میں اُتر گئیں۔ جھیل کا پانی نہایت شفاف اورحیرت انگیز حد تک ٹھنڈا تھا‘ذرا دیر کو اس میں ہاتھ ڈالا توانگلیاں سُن ہو کر رہ گئیں۔ہمارے حصے میں آنے والی کشتی میں کوئی فنی خرابی تھی۔بڑی مشکل سے اسٹارٹ ہوتی‘ کچھ دیر رینگتی اور پھر بند ہو جاتی۔دوسری کشتی والے ساتھیوں کے مذاق کا نشانہ تو بنے‘ مگردل یہی چاہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ وقت جھیل کے اندر گزرے۔ ویسے بھی بقول احسان جذبیؔ :

جب کشتی ثابت و سالم تھی‘ ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے !

خنک موسم اور جھیل میں کشتی کی سیر کے بعداب طلب ہو رہی تھی اچھی سی چائے کی!۔چائے کی چسکیوں اور گپ شپ کے بعدشائد موسم کی ادا دیکھتے ہوئے میاں بشارت کچھ گُنگنانے کے موڈ میں لگ رہے تھے۔ساجد موقع شناس نکلا‘جھٹ سے بولا ’پرات لاؤں ؟‘ کہنے لگے نہیں میز ہی ٹھیک ہے (شاید پہلے طبلہ کے طور پر’پرات‘لازمی استعمال ہوتی ہو گی !)۔اور پھر اپنے ہاتھوں سے میز بجاتے ہوئے گانے لگے: 

گھائل من کا پاگل پنچھی‘ اُڑنے کو بے قرار
پنکھ ہیں کومل‘ آنکھ ہے دھندلی‘ جانا ہے ساگر پار
اب تو ہی اسے سمجھا‘ کہ آئیں کون دِشا سے ہم
تو پیار کا ساگر ہے‘ تیری اِک بوند کے پیاسے ہم
لوٹا جودیا تو نے‘ چلے جائیں گے جہاں سے ہم !

کہتے ہیں رونا اور گانا سب کو آتا ہے۔ ایک ہم ہیں جنہیں گانا تو کیا آتا‘ڈھنگ سے رونا بھی نہیں آ سکا۔ کبھی دل ٹوٹاکبھی توڑ دیا گیا‘کبھی خود کو بہت تکلیف پہنچی‘کبھی کسی کی زبان کے گہرے زخم کھائے‘کبھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے۔۔۔ مگر پلکیں تک نہیں بھیگیں۔ ۔۔ اور کبھی باترجمہ قرآنِ کریم پڑھتے وقت ‘کبھی تاریخی واقعات کے مطالعہ کے دوران ‘کبھی دردبھری غزلیں سنتے ہوئے‘ کبھی اُداس شاعری پڑھتے ہوئے‘کبھی معاشرتی اونچ نیچ پر‘اورکبھی بالکل عام سی باتوں پربھی اپنے آنسو ضبط نہ کر پائے !

حقیقت یہ ہے کہ میاں بشارت کونہ صرف گانا بہت اچھا آتا تھا‘ بلکہ ذوقِ انتخاب بھی نہایت عمدہ تھا۔

جھیل مہوڈنڈ کو الوداع کہتے ہوئے اب ہمارا واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ ٹراؤٹ کھانے کا پروگرام تو وہیں بن رہا تھا لیکن پھر صرف چائے پر اکتفا کیا گیا۔اور یہ طے پایا کہ اوشو پہنچ کر ٹراؤٹ کھائی جائے ۔ اوشو ہوٹل والوں سے ٹراؤٹ کا معاملہ ٹھیک سے طے نہ ہوسکا اورپھر چکن پر ہی گزارا کیا گیا۔اوشو سے کھانا کھا کر کالام سے کچھ پہلے اُس جگہ پہنچے جہاں ہمیں بتایا گیا تھا کہ درختوں کے اُگنے کی ایک خاص ترتیب کی وجہ سے اسم مبارک’اللہ‘لکھا ہوا ہے۔ وہاں کچھ دیر کورُکے اور مختلف پہلوؤں سے منظر کی تصویر کشی کی۔

مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ ہم اس بات کے منتظرکیوں ہوتے ہیں کہ ہمیں خود اُس کانامِ پاک قدرتی طورپر کہیں لکھا ہوا ملے۔اور ہم بڑے اہتمام سے اسکی تصویریں بنا کردوسروں کو دکھائیں۔۔۔ کیا ہمیں ہر ہر قدم پراللہ کی قدرت ‘اُس کی صناعی‘اُس کی تخلیق‘ دکھائی نہیں دیتی۔یا پھر شاید ہم دن رات یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اِن میں اُس ذات کا عکس ہمیں دکھائی ہی نہیں دیتا‘ ہمیں لگتا ہی نہیں کہ یہ تخلیقات کوئی معجزہ ہیں‘حالانکہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ پُکار پُکار کر اپنے خالق کی حمد و ثنا بیان کر رہا ہے ! درخت کو ہی دیکھ لیں ۔ایک معمولی بیج میں سے ایک ننھی سی‘ نازک سی‘ کونپل کا بیج کو پھاڑ کر نکلنا۔پھراس کی مدد کیلئے زمین کے اندرونی تمام وسائل‘ نمکیات وغیرہ کا باہم اشتراک‘ پھراس کا زمین کی مٹی میں سے باہر آنا۔یہاں اس کیلئے آب و ہوا‘موسم اور دیگر قدرتی عوامل کامدد کیلئے ہردم کارفرما ہونا‘ اس کا پودے کی شکل اختیار کرنا‘ جڑوں کے ذریعے زمینی نمکیات اورپانی کاسورج کی روشنی سے مل جُل کر نہایت پیچیدہ انداز میں‘مگرنہایت احسن طریقے سے بلند و بالا درخت کی چوٹی تک کے ہر ہر پتے میں پہنچنا‘ کیایہ سب یونہی ہوگیا ؟بلکہ ہزارہا سال سے اسی طرح بغیر کسی غلطی کے ہوتا چلا آرہا ہے‘اس کے پیچھے جو نادیدہ قوت کارفرما ہے‘ ہم اس کا ادراک کیوں نہیں کر پاتے؟اللہ تعالیٰ ہمیں غور و فکر کی توفیق عطا فرمائے۔

آج رات ہمیں پھرکالام میں ٹھہرنا تھا‘ اور صبح ناشتہ کے بعد واپسی کا سفر جاری رکھنا تھا۔ یہاں آتے ہوئے تو رات کا سماں تھا اس لئے ارد گرد ٹھیک سے دیکھ نہیں پائے۔واپسی پرراستہ تو وہی ناہموار اور ٹوٹا پھوٹاتھا ‘لیکن مناظرِفطرت ہمیں بار بارگاڑی روک کر تصویر کشی پر مجبور کرتے رہے۔ایک جگہ آڑوؤں کا باغ نظر آیا۔ اس کے اندرجا کر پودوں کے ساتھ کھڑے ہوہوکر‘ آڑوؤں کو پکڑپکڑ کرتصویریں بنوائی گئیں۔۔۔یوں بھی دن کا یہ سفر‘ خراب سڑک کے باوجود‘رات کی نسبت اتنا خطرناک نہیں لگ رہا تھا۔ اور ویسے بھی اب ہم اترائی کی طرف ہی جا رہے تھے۔

۔۔۔ اور ہماری اگلی منزل مدین کاٹراؤٹ پارک ٹھہری تھی۔

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں