تازہ ترین
کام جاری ہے...
Friday, September 5, 2014

سفر وادیؑ سوات کا


کالام


وادئ کالام میں پہنچے‘ تویہاں قیام کیلئے جوہوٹل پسند آیا ‘ اس کا نام ’بنگش پیلس‘ تھا۔صاف ستھرے کشادہ کمرے اور نہائیت مناسب کرایہ‘ معاملات طے کرنے کے بعد سامان کمروں میں شفٹ کیا۔اور کھانا کھانے کیلئے چل دیئے۔ایک لاہوری ہوٹل اس کام کیلئے منتخب ہوا۔ذائقہ اچھا تھا ‘ سو پسند آیا۔کھانا کھا کر بستر پر پڑے‘ اور سو گئے۔ صبح اٹھتے ہی ناشتے سے پہلے کی فوٹوگرافی کا راؤنڈ مکمل کیا‘ پھر رات والے ہوٹل میں ہی ناشتہ کیا۔ اور جھیل مہوڈنڈ کے سفر کیلئے کمربستہ ہوئے۔ یہاں بنگش پیلس والوں نے ایک صائب مشورہ دیا کہ مہو ڈنڈجانے کیلئے آپ کی ٹویوٹا وین مناسب نہیں ‘ آپ کو 4WDگاڑی لینی چاہئیے۔سوانہی ہوٹل والوں کی ایک لینڈ کروزرمناسب کرائے پر بمعہ ڈرائیور لے لی گئی۔اور اگلی منزل جھیل مہوڈنڈ جانے کیلئے وادئ کالام سے روانہ ہوئے۔
کالام اپنی آبشاروں‘ جھیلوں‘سرسبز و شاداب پہاڑوں‘ دل موہ لینے والے قدرتی مناظر ‘ اور جدید سہولیات کی وجہ سے ایک سیاحتی مقام کے طورپربہت مشہورہے۔مینگورہ سے اس کا فاصلہ تقریباً 94کلومیٹر ہے۔سطح سمندر سے کوئی 6800فٹ بلند اس وسیع وادی کے ارد گرد نہائیت بلند و بالا پہاڑ موجود ہیں۔کالام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں خیال کیا جا تا ہے کہ ہزاروں سال قبل یہاں ایک خاندان آباد تھا ‘جس کا نام’ کال ‘بیان کیا جاتا ہے۔کوہستانی زبان میں ’لام ‘گاؤں کو کہتے ہیں۔اس وجہ سے اس علاقے کا نام ’کالام‘یعنی ’کا ل کا گاؤں‘ رکھا گیا ۔کال کی نسل کے لوگ آج بھی کالام میں موجود ہیں اور’کال خیل‘کہلاتے ہیں۔کالام کی سرحدیں دیر‘ چترال‘ گلگت ‘ تانگیر اورانڈس کوہستان سے ملتی ہیں۔یہاں کی بلند ترین چوٹی ’فلک سیر‘ ہے۔ جس کی بلندی چوبیس ہزار فٹ ہے۔یہ بلند پہاڑ ایک طرح سے سوات اور چترال کے درمیان قدرتی حد بندی بھی ہے۔دریائے سوات کے کنارے‘ میدانوں کی شادابی‘ مسحور کن فضااور دیدہ زیب فطری مناظر کی وجہ سے اس وادی کو کشمیرِ ثانی کہا جائے تو بے جا نہیں۔وادئ کالام کو دوحصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ بالائی وادی اور زیریں وادی۔

زیریں وادی دریا کے دائیں طرف واقع ہے ‘ جہاں کالام کا قدیم گاؤں آباد ہے۔کچے پکے مکان اوران میں نمایاں طور پر لکڑی کا کام‘ قدیم و جدید کا حسین امتزاج پیس کرتے ہیں۔یہاں دریا کے کنارے لکڑی کی بنی ہوئی کم از کم تین صدیاں پرانی ایک مسجد ہے۔ جس میں کوئی سوفٹ لمبے دیوہیکل شہتیراستعمال کئے گئے ہیں۔بھاری بھرکم دروازے‘ شہتیر‘ لکڑی پرکندہ کاری کا خوبصورت کام‘ اور پہلی منزل پر صرف ایک درمیانی ستون پر ٹھہرائی گئی لکڑی کی نقش و نگار سے مزین خوبصورت چھت‘ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اُس زمانے میں‘ ایسے دورافتادہ گاؤں میںیہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟۔منفرد طرزِتعمیر اورقدامت کی وجہ سے یہ مسجد ہمیشہ سیاحوں کی توجہ کا مرکزبنی رہتی ہے۔ہم نے بھی مسجد کو بہت دلچسپی سے گھوم پھر کر دیکھا‘تصویریں بنائیں اور وہاں موجود ایک بزرگ سے اس مسجد کی تاریخی حیثیت کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔

بالائی کالام‘ دریا کے بائیں طرف واقع ہے۔اس کو ’کس‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔یہ وادی‘ زیریں وادی کینسبت خاصی جدید ہے اور تقریباً تمام جدید تعمیرات‘ سرکاری محکمہ جات کے دفاتر‘ پی ٹی ڈی سی موٹل‘کئی ہوٹل اورمین بازار اس طرف موجود ہیں۔بالائی کالام سے زیریں کالام کا نظارہ نہایت دلفریب‘پر کیف‘ دلکش اور جاذب نظر ہے۔

وادئ کالام سے جھیل مہوڈنڈ کے راستے میں پہلے آنے والا مقام ’اوشو‘ہے۔قریباً دس کلومیٹر کی مسافت پر۔یہ وادی بھی قدرتی حسن و جمال کا ایک دلنشین منظر پیش کرتی ہے۔دریا کے عین کنارے پر ’اوشو ہوٹل‘ اور رسیوں اور لکڑی کے تختوں سے بنا ہوا پل‘ اس منظر کی دلکشی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ یہاں کولڈڈرنکس کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے ایک اچھوتی تکنیک دیکھنے میں آئی کہ پہاڑوں سے آنے والے چشموں کا ٹھنڈا پانی پائپوں کے ذریعے ترتیب سے سجائی گئی بوتلوں پر فواروں کی شکل میں گرایا جاتا ہے ۔جس سے بوتلیں یخ بستہ رہتی ہیں۔ 

اوشو سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر’ مٹلتان‘ واقع ہے۔یہ چاروں طرف سے آسمان سے سرگوشیاں کرتے ہوئے سر سبز وشاداب پہاڑوں میں گھری‘ دلکش و حسین‘ مہکتی ہوئی وادی ہے۔برف سے ڈھکے پہاڑ‘ اور ان کی چوٹیوں پر اُڑنے والے سفید و سیاہ بادل‘ ایک طلسماتی منظر تخلیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مٹلتان کی وجہ تسمیہ بھی کافی دلچسپ ہے۔’ مٹل‘کوہستانی زبان میں سفید مٹی کو کہتے ہیں۔ اور یہاں اس مٹی کی بہتات ہے۔اس لئے اسے مٹلتان کہا جاتا ہے۔یہاں سردیوں کے موسم میںآتش دانوں میں آگ مسلسل جلتی رہتی ہے جس سے مکانوں کی دیواریں سیاہ ہو جاتی ہیں۔ اس مٹل کا ایک کام چونے کی شکل میں گھروں کو اُجلا رکھنا بھی ہے۔مٹلتان کے ایک طرف دریائے اوشو بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکراتا ہوااپنا جلال دکھا رہا ہے تو دوسری جانب اُچھلتی کودتی ایک ندی اِس سے ملنے کو بے قرار ہے۔یہیں ان دونوں کا سنگم ہوتا ہے اور پھر یہ کالام پہنچ کر دریائے سوات سے جا ملتے ہیں۔

مٹلتان کے قریب ہی ایک آبشار ہے‘ جہاں پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتا ہوا پانی آن گرتا ہے‘اتنی بلندی سے ایک منحنی سی دھار کی شکل میں بہتا پانی نیچے آتے آتے ایک طاقتور جھرنے کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ پتھروں سے اٹھکیلیاں کرتی یہ آبشارماحول کوایک نئی خوبصورتی عطا کرتے ہوئے نیچے دریا میں شامل ہو جاتی ہے۔ان تمام مقامات پر کچھ وقت گزارتے ہوئے‘ اپنے کیمروں میں انکے خوبصورت مناظر محفوظ کرتے ہوئے‘ ہم جھیل مہوڈنڈ کی جانب گامزن تھے۔جو ابھی یہاں مٹلتان سے بیس کلو میٹر دور تھی۔

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں