تازہ ترین
کام جاری ہے...
Friday, September 5, 2014

سفر وادیؑ سوات کا


واپسی


میاندم سے واپسی‘ دراصل گھر کی جانب واپسی تھی۔۔۔ اللہ کا نام لیکر سفر شروع ہو چکاتھا۔خوازہ خیلہ‘ مینگورہ بائی پاس‘سے ہوتے ہوئے جا رہے تھے کہ کوٹہ ‘ نواں کلے سے گزرتے ہوئے آڑوؤں کا ایک باغ دکھائی پڑا۔ کھانے کیلئے کچھ خریدنے کا پرو گرام بنا۔ اور پھرفیصلہ کیا گیا کہ سوغات کے طور پر یہ آڑو گھروں کیلئے بھی لے لئے جائیں۔ سوحسب ضرورت ڈبے خرید کرگاڑی کی چھت پرباندھ لئے۔یہاں سے اب نان سٹاپ سفر شروع ہو گیا یعنی سی این جی یا نماز کے علاوہ گاڑی کہیں نہیں روکی گئی۔

بٹ خیلہ سے کچھ پہلے دریائے سوات کا ساتھ چھوٹ گیا۔۔۔ وہ دریا جس نے جاتے ہوئے مینگورہ سے کالام اور مہوڈنڈ تک ہمارا سا تھ دیا تھا۔اور ہم اس کی محبت میں ایسے ایسے دشوار راستوں سے گزرے تھے کہ جوڑ جوڑ دکھنے لگ گیا تھا ؂
رستے بڑے دشوار اور کوس کڑے تھے‘ 
لیکن تیری آواز پر ہم دوڑ پڑے تھے !
واپسی کا سفر بھی انہی رستوں پر رہا‘ دریا کبھی کبھی نظروں سے اوجھل ضرور ہوا مگراس نے ہمارا‘ اور ہم نے اس کا ساتھ نہ چھوڑا۔دریائے سوات کا منبع کو ہِ ہندوکُش میں ہے۔وہاں سے جھیل مہوڈنڈ‘وادئ کالام سے ہوتا ہوا ضلع سوات میں آتا ہے۔ اس کے بعد بٹ خیلہ کے قریب سے رُخ بدلتے ہوئے ضلع لوئر دیر سے گزرتا ہے۔اور ضلع چارسدہ کے قریب جا کر دریائے کابل میں شامل ہو جاتا ہے۔ قدیم تاریخ کے حوالے سے اس کا ذکر ہندوؤں کی مقدس کتاب’ رگ وید‘ میں آتا ہے۔جس میں اس کا نام ’سواستو‘ ملتا ہے۔

۔۔۔ اب ہماری اور دریائے سوات کی راہیں جدا ہو چکی تھیں !

مالا کنڈ کی پہاڑیوں کو دیکھ کر آخری بار پھر ان مناظر کو کیمرے میں محفوظ کرنے کا خیال آیا۔ سو ایک مناسب جگہ رک کر سورج غروب ہونے سے قبل تصاویر بنا لی گئیں۔اس کے بعدپھر چل دئیے۔اوراگلا پڑاؤ راولپنڈی قرار پایا‘ کھانا کھانے کیلئے۔۔۔ اس دوران کچھ ساتھیوں کی طرف سے مری کی سیر کا مشورہ پیش کیا گیا ‘ سو طے یہ پایاکہ کھانے کی میز پر ووٹنگ کی جائے گی۔ اور’ خالص جمہوری عمل ‘سے فیصلہ کیا جائے گا۔کھانے کی تلاش میں پیرودھائی اورفیض آباد گھومے‘ مگرپسند کا کھانا نظر نہیں آیا۔لہٰذا سیور فوڈز گورڈن کالج روڈسے بریانی کھائی اور بس ! ’جمہوری عمل‘ بھی رہ گیا۔۔۔ شاید ہم سب میں واپس گھر جانے کی تمناہر بات پر حاوی ہوچکی تھی۔بالکل اسی طرح جیسے وطنِ عزیز میں حکمران اپنے گھربار‘ اپنے اقتدار‘ اپنی انا کی خاطر جمہوریت کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ اور جمہوری عمل‘ جس کے لیے دن رات تقاریر کرتے نہیں تھکتے‘ یکسر بھول جاتے ہیں ۔۔۔

رات آدھی بیت چکی تھی۔ نیند کا وقت بھی تھا‘ اورخمارِ گندم بھی‘ راولپنڈی کے بعد زیادہ تر ساتھی وقتاًفوقتاً نیند کی وادی کی سیر کرتے رہے‘ صرف استاد جمیل تھا جو پوری لگن سے اپنے کام میں جُتا رہا۔واپسی پرنہ جانے کیوں جھیل مہوڈنڈ کا منظر میری چشم تصور میں ابھر آیا۔ جب میاں بشارت کی آواز اس خوبصورت فضا میں مسحور کن نغمے بکھیر رہی تھی ۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ اس گیت کے بولوں میں کس قدر سچائی ہے ؂

اِدھر جھوم کے گائے زندگی‘ اُدھر ہے موت کھڑی
کوئی کیا جانے کہاں ہے سیما‘ اُلجھن آن پڑی

ایک طرف زندگی اپنی تمامتر رعنائیوں‘ رنگینیوں اورامنگوں کے ساتھ موجود ہوتی ہے اور دوسری طرف موت کا مہیب سناٹااور ہولناک خاموشی۔کوئی نہیں جانتاکہ ان کے درمیان حد فاصل‘ وہ لکیرکون سی ہے ۔کہ جس کے بعد موت کی عمل داری شروع ہو جاتی ہے؟ وہ کونسی سانس ہے کہ جس کے بعد سانسوں کی ڈوری ٹوٹ جاتی ہے؟ وہ کونسی دھڑکن ہے کہ جس کے بعددھڑکن رُک جاتی ہیں ؟ زندگی کے اختتام اور موت کی ابتدا کا نقطہ نامعلوم ہے‘ اور نامعلوم رہے گا۔ 

یہی اس کائنات کاسب سے بڑاسچ ہے !
Older Post
اگلی پوسٹ
یہ سب سے نئی پوسٹ ہے۔

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں