تازہ ترین
کام جاری ہے...
Friday, September 5, 2014

سفر وادیؑ سوات کا


میاندم


میاندم‘ مینگورہ سے بتیس کلو میٹر کے فاصلے پرواقع ایک سحر انگیزاورگل رنگ وادی ہے‘ سطح سمندر سے چھ ہزار فٹ بلند اس وادی کی غیر معمولی دلکشی اس کے ارد گرد ایستاد ہ برف پوش پہاڑوں‘ گھنے جنگلات‘ معتدل موسم‘معطر فضااورصحت بخش آب و ہوا کی مرہونِ منت ہے۔اس کے نام کے بارے میں مشہور ہے کہ پہلے پہل اس علاقے میں میاندم نام کی کوئی جگہ موجود نہیں تھی۔جو مقام اب میاندم کہلاتا ہے‘ وہ یہاں کے دو دیہات ’گوجر کلے‘ اور’سواتی کلے‘کے درمیان حدِفاصل تھا۔ایک بار یہاں سید خاندان کے ایک بزرگ تشریف لائے اور موجودہ بس اڈے کے قریب رہائش پذیر ہو گئے۔وہ مختلف تکالیف اور بیماریوں کا علاج قرآنی دم کے ذریعے کرتے تھے۔ان کا نام تو میاں عثمان تھا لیکن علاقے کے لوگ انہیں احتراماً میاں جی کہا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ میاں جی کے دم کی شہرت ہر طرف پھیل گئی اور اس علاقے کو ہی ’میاں دم ‘کے نام سے پکارا جانے لگا۔یہاں تک کہ اس علاقے کے دوسرے مشہور مقامات بشمول ’گوجر کلے‘ اور’سواتی کلے‘ بھی’ میاندم‘ کی مرکزی شناخت میں ضم ہو کر رہ گئے۔ میاندم میں خالص سواتی شہد اور مختلف موسمی پھل از قسم املوک‘ جاپانی پھل(جسے یہاں ’بڑا املوک ‘کہا جاتا ہے)‘ ناشپاتی ‘آڑو‘اخروٹ‘ انجیروغیرہ بکثرت پائے جاتے ہیں۔آلو‘ مکئی‘اورمشروم یعنی کھمبی یہاں کی خاص پیداوار ہے اورمختلف قیمتی‘نادر و نایاب جڑی بوٹیوں کیلئے بھی میاندم خاص شہرت رکھتا ہے۔ بلکہ اس مقصد کیلئے ورلڈ وائڈ فنڈ(WWF)کی جانب سے اسے باقاعدہ طور پر دوائیوں میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں کی فارمنگ کیلئے موزوں خطہ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

ہم میاندم پہنچے تو شام کا سماں تھا‘ہوٹل کی تلاش کیلئے کچھ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ سامنے ہی نظر آنے والاہوٹل میاندم پیلس بہت مناسب لگا۔سامان کمروں میں رکھ کر ہم لوگ بازار کی طرف چل دئیے۔ اب مشورہ یہ ہونے لگاتھا کہ یہاں بازار سے سامان خرید کر ہوٹل لے جایا جائے۔ گیس سلنڈر‘ چولھا‘ دیگچی وغیرہ پہلے سے گاڑی میں موجود تھا۔ اورحکیم شفیق ‘ رانا اسد اور ساجد اسے پکانے کی خدمت سرانجام دیں کہ یہ تینوں اس معاملے میں خاصے تجربہ کار تھے۔ اگلا سوال یہ تھا کہ کیا پکایا جائے۔لے دے کے بات انڈوں کے آملیٹ پر ختم ہوئی۔ گھی‘ مرچ مصالحے وغیرہ خریدے جارہے تھے کہ خیال آیا کہ اتنا سامان لے کر اگر صرف ایک دفعہ ہی کوکنگ کرنی ہے تو ۔۔۔۔۔ کھانا بازار سے ہی کھا لیا جائے ! چنانچہ اب اُسی دکان کے برابروالے ریسٹورنٹ کی طرف نظر گئی۔ پتہ چلا کہ رات ہونے کہ وجہ سے بند ہو چکا ہے لیکن اگر آپ چاہیں تو متعلقہ افرادکو گھر سے بلوا کرہمارے لئے کھانا پکوانے کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ اس قدر پرخلوص اور فراخ دلانہ پیشکش کو ہم ٹھکرا ہی نہیں سکے۔ اورریسٹورنٹ والوں کو چکن کڑاہی کا آرڈر دے کر خود گپ شپ کیلئے بیٹھ گئے۔دفعتاً کسی نے یاد دلا دیا کہ گذشتہ روز میاں بشارت کا گلا کچھ ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہ عنائت حسین بھٹی کے گیت نہیں سنا سکے تھے لہٰذا’ اب ہو جائے‘۔ سو میاں بشارت ایک با ر پھرمیز بجاتے ہوئے شروع ہوگئے۔
تک دلبریاں دلبر دیاں‘ اینویں پج پا کے رُس بیہنا‘ ۔۔۔ اور جب طبیعت میں روانی آگئی تو پھر ۔۔۔ ہم نے جفا نہ سیکھی ان کو وفا نہ آئی‘ تو پیار کا ساگر ہے‘ آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا‘

اِدھر میزپریہ محفل جاری تھی اور اُدھر چولھے پر کڑاہی تیاری کے آخری مراحل میں تھی۔اور رانا اسداور حکیم شفیق پکانیوالے کو اپنے قیمتی مشوروں ے نواز رہے تھے۔ان کے کھڑے کھڑے اس شریف آدمی نے اس میں گلاس بھر پانی ڈال دیا۔ اور یہ سب ایک دوسرے کا منہ تکتے ہی رہ گئے !اُس نے دلاسہ دیا کہ فکر نہ کرو چکن بہت اچھا بنے گا‘۔۔۔۔ اور واقعی کڑاہی تو نہیں البتہ شوربے والا اچھا سالن بنا !کھانا کھایا‘ اللہ کا شکر اور بنانے والے کا شکریہ ادا کیا۔ ہوٹل جا کر کیمرہ کے کارڈوں کی تصویریں لیپ ٹاپ میں منتقل کیں۔اور سو رہے۔۔۔

صبح تیار ہو کر ہوٹل سے نکلے۔ رات والے ریسٹورنٹ سے چنے ‘آملیٹ وغیرہ کا ناشتہ کیا۔اور سیر کیلئے چل دئیے۔پہلے پی ٹی ڈی سی موٹل دیکھا‘ کچھ تصویریں بنائیں۔پھر ایک ندی کی طرف جانے والے راستے پر گام زن ہوئے۔ راستے میں ناشپاتیوں کے درخت دیکھ کر کئی ساتھیوں کے منہ میں پانی بھر آیا‘ ان سے رہا نہیں گیا‘ اوراُچک اُچک کر ناشپاتیاں توڑ کر کھانے لگے۔ جلد ہی ندی نظر آ گئی‘ یہاں کی منظر کشی پر کچھ وقت صرف کیا۔ کچھ دیر مزید اِدھر اُدھر گھومتے رہے۔پتہ چلا کہ یہاں ایک ’عقلمند لوہار‘ بھی ہے ! ثبوت کے طورپر اس کی دکان کی تصویر بھی لے لی گئی۔۔۔

۔۔۔ اور پھر واپسی کے لئے ’شراٹا ٹائم‘ میں جا بیٹھے ۔

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں