تازہ ترین
کام جاری ہے...
Friday, September 5, 2014

سفر وادیؑ سوات کا


مالم جبہ


مالم جبہ ‘ مینگورہ سے کوئی 42 کلو میٹرکے فاصلے پر ہے‘ مینگلور پل کے قریب اس کا راستہ‘ مدین اوربحرین کے راستے سے الگ ہوجاتا ہے۔اس کی سڑک کے ایک طرف سرسبز پہاڑ‘ درخت اور دوسری طرف ایک چھوٹی سی ندی بہتی ہے۔جس میں پڑے ہوئے بڑے بڑے دیوہیکل پتھر جا بجادکھائی دیتے ہیں۔مالم اورجبہ دو الگ الگ مقامات ہیں‘ مگراتنے قریب کہ ’مالم جبہ ‘ ایک ہی جگہ کو کہاجاتا ہے۔یہ مری کی طرح پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔سطح سمندر سے اس کی بلندی 9500فٹ‘ اور رقبہ250ایکڑ پر محیط ہے۔کہیں کہیں سڑک خاصی پُر پیچ‘ دشوار گزار اورمسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔مالم جبہ دسمبر سے مارچ تک برف پوش رہتا ہے۔اس عرصہ میں یہاں بارہ سے سولہ فٹ تک برف پڑتی ہے۔سردیوں میں درجۂ حرارت منفی دس ڈگری تک جبکہ گرمیوں میں دس سے پچیس ڈگری رہتا ہے ۔ سرسبز پہاڑوں‘ اور دلکش مناظر کی وجہ سے مالم جبہ نہایت پرفضا مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے قرب و جوار میں جنگلات وسیعقطعہ اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں۔جگہ جگہ مختلف النوع‘ رنگ برنگے اورخوبصورت پھول کھلے ہوئے ہیں۔مالم جبہ مجموعی طور پر اُوپر تلے ڈھلانوں پر مشتمل ہے۔ڈھلانوں اور برف کی وجہ سے یہ پاکستان کا واحد سکی انگ ٹریک بھی ہے۔ اس ٹریک کی لمبائی آٹھ سو میٹر ہے۔اسے حکومت آسٹریاکے تعاون سے رولر سکیٹنگ ‘ آئس سکیٹنگ ‘ سکی انگ پلیٹ فارم‘ چیئرلفٹ ‘ اور برف ہٹانے کیلئے جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا تھا۔ یہاں پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کاخوبصورت ہوٹل بھی موجود تھا لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں ہم نے بہت کچھ کھو دیا‘ وہیں اس ہوٹل اور دیگر سہولیات کی قربانی بھی دینا پڑی۔

ہم جب مالم جبہ پہنچے تو وہاں کا موسم خاصا خنک تھا۔ٹھنڈی ٹھنڈی ‘مدہوش کن‘معطر ہوائیں ہما رے استقبال کو موجود تھیں۔چشموں کا ٹھنڈا یخ اورمیٹھا پانی پینے کو ملا۔کچھ دیر اِدھر اُدھر چل پھر کر تصویریں وغیرہ بناتے رہے۔پھروہاں ہمیں ایک بزعم خودگائیڈ بھی ملا۔ جس نے ہماری کچھ تصویریں اور ویڈیوبنا کر‘کچھ دیر اونچے نیچے راستوں پر خوار کروا کرمِس گائیڈ کرنے کا حق ادا کردیا !پہلے یہیں کھانا کھانے کا پروگرام بھی بنا لیکن پھر گائیڈ والے تجربے ‘ ہوٹل والوں کی چرب زبانی‘ اورکھانے کی چیزوں کی قیمتوں کی وجہ سے ارادہ بدل دیا گیا اور نیچے شہر میں جا کر کھانا طے پایا۔مالم جبہ میں ابھی کچھ دیر مزید گھومنے کو دل چاہ رہا تھا۔ مگر یہاں دیر کرنے کا مطلب تھا کہ کالام کا سفر جو سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے پہلے ہی خطرناک ہے‘ خطرناک تر ہو جائے گا۔ سو ہم نے بادلِ ناخواستہ واپسی کی ٹھانی۔

واپس مینگلور پُل پہنچ کر بحرین روڈ پرچلتے ہوئے چار باغ کے راستے خوازہ خیلہ پہنچے۔یہاں کھانے کیلئے ہوٹل ڈھونڈنا مشکل نہیں تھا‘لیکن کھانوں کا اندازاور ذائقہ ہم لاہوریوں کیلئے ذرابس یونہی سا تھا۔ چکن کڑاہی بنوائی گئی تو ۔۔۔۔۔‘ خیر ! اندازِ میزبانی میں کھانے کے آخر میں تھوڑا تھوڑا شہد‘بالائی‘ مکھن‘میوہ وغیرہ پیش کیا جانا اچھا لگا۔ کھانے کے بعد حسب روائیت چائے تھی۔خوازہ خیلہ میں چائے پیتے ہوئے زبان ایک نئے ذائقے سے آشنا ہوئی ! ہم لاہوریئے عام طور پر اچھی چائے ’دودھ پتی‘ کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ کہیں کہیں چائے کی دستاربندی کا رواج بھی ہے۔۔۔ میری مراد ’ پگ والی چاء ‘ سے ہے۔ چائے کے کپ کے اوپر گاڑھی گاڑھی سفید ’ ملائی‘ چائے کا ظاہری اور باطنیحسن دوبالا کر دیتی ہے۔ اس پَگ کا ایک اور ہم معنی لفظ اس وقت سننے میں آیا جب ایک ہوٹل پر دودھ پتی کا آرڈر دیا تو وہ ظالم چائے کپ میں ڈالنے کے بعدگویا ہوا ’بھاء جی لینٹر وی پاء دیاں ؟‘ ہم حیران تھے کہ یہاں چائے کے کپ کے اوپر کونسی چھت اور کہاں کا لینٹر ! لیکن اس کے مسکراتے ہوئے ملائی کی طرف اشارہ کرنے سے بات سمجھ میں آ ہی گئی ۔ ۔ ۔ ویسے یہ گئے زمانوں کی باتیں ہیں۔ اب خالص ملائی ایک تو ملتی نہیں دوسرے ڈاکٹر حضرات کو اس بیچاری سے خدا واسطے کا بیر ہے !اس سے کولیسٹرول اورکیلوریزمیں ممکنہ اضافے ‘ اس کے نقصانات اورمضرتوں کے بیان کرنے میں یہ لوگ کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان بھلے مانسوں کوکیسے بتائیں کہ جب لوگ دودھ ملائی وغیرہ کا استعمال زیادہ کرتے تھے تو بیماریاں کم اور عمریں لمبی ہوا کرتی تھیں۔ ۔۔ مگر۔۔۔ ہماری کوئی سنتا ہی کب ہے !

بات ہو رہی تھی خوازہ خیلہ کی چائے کی۔ اس میں نیا ذائقہ(اچھے بُرے کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں!) جو وہاں چکھنے کو ملا‘ کوکونٹ یعنی ناریل کا تھا۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے چائے پر ناریل کے برادے کا لینٹر ڈال رکھا تھا !

خوازہ خیلہ سے ایک بار پھر سفر شروع ہوا۔ مدین اور بحرین کے راستے وادئ کالام کا سفر‘ ٹوٹا پھوٹاناہموار راستہ‘ ایک طرف اونچے پہاڑ‘ دوسری طرف نیچے گہرائی میں دریائے سوات کا ٹھاٹھیں مارتاپانی‘ ایسی بلندی ایسی پستی ! پھر ٹویوٹاوین اور اس میں سامان کے علاوہ گیارہ نفوس‘ تھوڑی دیر کے بعد گاڑی ہانپتے ہانپتے رک جاتی‘ اور آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے لڑھکنے لگتی‘ کچھ لوگ اس میں سے جلدی جلدی نیچے اترتے‘ ٹائروں کے پیچھے پتھر رکھتے‘ اور آ گے بڑھنے میں’شراٹا ٹائم‘کی مدد کرنے کیلئے دھکا لگاتے!استاد جمیل اس صورتحال پر خاصا پریشان دکھائی دے رہا تھا کہ الیکٹرانک فیول انجیکشنEFI سسٹم لگوانے کے باوجود ایسا کیوں ہو رہا ہے؟اور پھر جلد ہی اس کاذہنِ رسا معاملے کی تہ تک پہنچ گیا‘کہ انجن کی ائیر اِن لیٹ Air Inletکی ایڈجسٹمنٹ درست نہیں ہے۔ اس نے ایڈجسٹمنٹ درست کی‘ اورگاڑی بھرپور انداز میں طاقت لگاتے ہوئے سفر طے کرنے لگی۔رستے کی ناہمواری ‘ جگہ جگہ چھوٹے بڑے پتھر‘اور پھر اب رات کا سماں‘ گاڑی کی ہیڈلائٹس کے علاوہ ارد گرد کہیں روشنی نہیں‘لگ رہا تھا کہ وادئ کالام زبانِ حال سے یہ کہہ رہی ہے ؂

انہی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آؤ‘
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے!

سفر تو جیسے تیسے ختم ہو گیا لیکن ہم استاد جمیل کی مشاقانہ ڈرائیونگ کے قائل ہو گئے !

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں